“Baat se Baat” (Speaker: Dr. Qasim Yaqoob)
کمزور اور طاقت ور کی بحث آج کی نہیں، بہت پرانی ہے۔ دنیا بھر کے بڑے فلسفے اور ادیان اس مسئلے پرسوچتے رہے ہیں۔ کمزور کو طاقت ور بنانے اور طاقت ور کو اس کی حدود میں مقید کرنے کی سعی تاریخ کے اوراق میں بھری پڑی ہے مگر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر طاقت اور کمزور ہوتا ہی کیوں ہے؟یہ تصور جنم کہاں سے لیتا ہے؟ کیا سماج کا تصوراس کے بغیرقائم نہیں ہو سکتا؟ طاقت ور کسی کو نقصان ہی کیوں پہنچاتا ہے؟ طاقت ور اگر سب کچھ کر سکتا ہے تو فائدہ بھی تو پہنچا سکتا ہے؟ پاکستانی سماج میں طاقت کسی پر مثبت اثر انداز ہونے والی قدر کیوں نہیں ہے؟ سماجی سرگرمی میں کمزور اور طاقت ور کے روایتی تصور کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے مگر ڈاکٹر قاسم یعقوب کی گفتگو میں ایک فرق ہوگا کہ یہاں طاقت اور کمزور کی ان گم شدہ شکلوں کو پہچاننے کی کوشش کی جائے گی جو طاقت ور میں کمزوری اور کمزور میں طاقت وری کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ جیسے؛ بظاہر ایک مذہبی آدمی سماج کا کمزور اور کنارہ کش فرد دکھائی دیتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو طاقت کے اس گٹھ جوڑ کا مکمل حصہ ہے، جو اشرافیائی اقدار کا فروغ چاہتا ہے۔ اسی طرح صرف عسکری نہیں، ان قوتوں کو بھی پہچاننے کی کوشش کی جائے گی جو اخلاق اور اقدار کے نام پر طاقت کے غیر مرئی تصورات سے لبریز ہوتی ہیں، جن کے تصور کے بغیر فرد سماج میں سماجی مقام بھی حاصل نہیں کر پاتا۔
طاقت کا کسی کو نقصان پہچانے یا اشیا کو تصرف میں کر لینے کا تصور اب جدید معاشروں میں ختم ہوتا جا رہا ہے۔ افسوس سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی سماج میں ابھی تک نو آبادیاتی اور طاقت کے قدیم عسکری تصورات رائج ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم طاقت کا ”گھٹیا“ سماجی تصور رکھتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو یہ باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ سماج میں رہتے ہوئے ہم سب ایک دوسرے کا سہاراہیں۔ ہم میں کوئی بڑا چھوٹا نہیں اور نہ ہی کوئی طاقت ور اور کمزور ہے۔ سماجی سرگرمیوں میں سب اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اس لیے سب محترم اور اہم ہیں۔ بڑائی اور چھوٹائی فرد کی سماجی شمولیت سے جنم لیتی ہے۔ جو فرد جتنا معاشرے کے لیے کارآمد ہوتا ہے، اتنا ہی بڑا ہوتا ہے۔ ’بڑا‘ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ باقی گھٹیا اور کمزور ہیں۔ بڑا ہونا خراج تحسین ہے اور چھوٹا ہونا نشان دہی ہے کہ وہ زیادہ شمولیت اختیار کرے۔ عسکری قوت سے کسی کو زیر کرنے کے زمانے چلے گئے ہیں۔ ہمیں پورے سماج کی ازسرِ نَو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔
قاسم یعقوب کے بارے میں
قاسم یعقوب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں استاد ہیں۔ ادبی نقاد اور مدیر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی سماجی اور ادبی تنقید پر 5 کتابیں شائع ہو چکی ہیں (لفظ اور تنقید معنی، تنقید کی شعریات ، اردو شاعری پر جنگوں کے اثرات،طاقت اور سماج، فرد سماج اور تہذیبی تجربہ)۔ آپ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی تنقیدی تھیوری پر ہے۔ حال ہی میں ان کی تازہ کتاب “تنقیدی سیاق اور نئے سوال ” شائع ہوئی ہے۔
اس فکر افروز گفتگو میں شرکت کے لئے آپ کو صرف نیچے دیا گیا رجسٹریشن فارم بھرنا ہے، جس کی کوئی بھی فیس یا چارجز نہیں ہیں۔سیٹس کی تعداد محدود ہونے کے باعث رجسٹریشن پہلے آئیں، پہلے پائیں کی بنیاد پر ہے، اس لئے بنا کسی تاخیر کے رجسٹریشن فارم بھر کے اپنے لئے سیٹ مختص کرا لیجئے۔