Humanism: Taa’aruf aur Tajziya
ہیومنزم: تعارف و تجزیہ
ہیومنزم یعنی انسان دوستی کی عالمی تحریک کا آغاز تو یورپی نشاۃ الثانیہ کی تحریک سے ہوا، جس کی بنیاد قدیم یونانی فکر و فلسفہ کے تراجم کے ذریعے رکھی گئی تھی۔ اس فکر کا مرکز و محور الٰہیات کی بجائے صرف انسان اور انسانی تعقل قرار پایا۔ اسی تحریک کے باعث آنے والے زمانے میں جدید سائنسی علوم و فنون کی بنیاد پڑی۔ پہلا عالمی ہیومنسٹ مینی فیسٹو 1933ء جبکہ دوسرا 1973ء میں سامنے آیا۔ ان مینی فیسٹوز میں کسی قدر مذہب کو بھی حصہ بنایا گیا لیکن ہیومنسٹ مینی فیسٹو 2000ء میں مذہب اور اس کی جملہ تمام مبادیات کو قطعی اور حتمی طور پر خارج کر دیا گیا کہ انسان کی آزادی اور خود انحصاری اب مذاہب کی قید سے آزاد ہو چکی ہے۔ ان کے علاوہ سیکولر ہیومنسٹ مینی فیسٹو، ریلیجیئس ہیومنسٹ مینی فیسٹو اور سوشلسٹ ہیومنسٹ مینی فیسٹوز بھی سامنے آ چکے ہیں، یہ تمام مینی فیسٹوز بھی تعقل پسند علمی روایت کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ پوسٹ ماڈرنزم بھی ہیومنزم ہی کی ایک شکل ہے کہ جس کے تحت رنگ و نسل و مذہب و ثقافت و قوم سے متعلق تمام عصبیتوں کو ختم کرنے کے لیے ان کے بڑے بیانیوں کو چیلنج کیا جا رہا ہے تاکہ عالمِ انسان کو ان کی متشدد تعلیمات سے بچایا جا سکے۔
مقرر کا تعارف
ڈاکٹر صلاح الدین درویش اردو کے استاد کی حیثیت سے چھبیس سالہ کیریئر کے ساتھ علمی و ادبی حلقوں میں بطور دانشور نقاد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جنسی انحرافات اور ہیومنزم کو اردو افسانے اور ناول کے حوالے سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطحوں پر اپنی تحقیق کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ مندرجہ موضوعات پر اپنا کام شائع کیا ہے: تیسری دنیا کا فلسفہ انکار، جدید ادبی تحریکوں کا زوال، اردو افسانے کے جنسی رجحانات، انسان کائنات اور سماج، انسان دوستی نظریہ اور تحریک، فکرِ اقبال اکا لمیہ، اور تنقید اور بیانیہ۔