Book Launch: “Kinaar-e-Aab ka Khwaab” by Khurshid Hasanain
تقریب رونمائی
ڈاکٹر خورشید حسنین کے پہلے مجموعہ کلام ” کنار آب کا خواب“ کی تقریب رونمائی کی نظامت ڈاکٹر روش ندیم کر رہے ہیں، جبکہ پینل ڈسکشن کے لئے فقیر سائیں اور حارث خلیق شریک محفل ہیں۔
کتاب ”کنار آب کا خواب“ سائنسی تحقیق اور تدریس کے میدان سے تعلق رکھنے والے خورشید حسنین کا پہلا مطبوعہ مجموعہ کلام ہے، تاہم انہیں کسی طور ادب میں نووارد نہیں سمجھا جا سکتا۔ وہ خود بھی ایک عرصے سے شاعری اور افسا نہ نگاری کر رہے ہیں اور ان کا تعلق ایک ادبی خانوادے سے ہے، جس نے الطاف حسین حالی اور خواجہ احمد عباس جیسے نام پیدا کئے ہیں۔
شاعر کا تعارف
ڈاکٹر خورشید حسنین نے ابتدائی تعلیم ڈی جے سائنس کالج سے حاصل کی اور بعد ازاں کراچی یونیورسٹی سے طبیعات میں ماسٹرز کیا۔ 1971ء سے 1977ء کے عرصے تک آپ کراچی کی طلبا سیاست اور ادبی تحریکوں سے وابستہ رہے، جہاں آپ کو فہمیدہ ریاض، سبط حسن اور محمد علی صدیقی جیسے مشاہیران کی رفاقت ملی ۔ترقی پسند تحریک سے متاثر ہو کر آپ نے مجاہد بریلوی اور دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر’ینگ رائٹرز فورم‘ تشکیل دیا اور طلبا کے لئے ’کوہکن‘ نامی ادبی مجلے کا اجرا کیا۔ اس دوران میں آپ پراگریسو سٹوڈنٹس کے پلیٹ فارم سے کراچی یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔
آپ 1977ء میں بوسٹن کی ٹفٹس یونیورسٹی سے طبیعات میں پی ایچ ڈی کرنے امریکہ روانہ ہو گئے۔ 1982ء میں ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کے بعد آپ نے اگلے چار برس امریکہ کے مختلف اداروں میں سائنسی تحقیق میں گزارے۔ آپ 1986ء میں پاکستان واپس آئے اور قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات میں درس و تدریس کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔لگ بھگ تین دہائیوں کے بعد آپ وہاں سے بطور ڈین آف نیچرل سائنسز ریٹائرڈ ہوئے۔ اس دوران آپ کو تعلیم اور سائنس میں کئ اعزازات سے نوازا گیا۔ ان دنوں آپ ایک بین الاقوامی تنظیم کامسٹیک میں سائنس کے مشیر کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اس سارے عرصے میں درس و تدریس اور تحقیق کی مصروفیت کے باوجود آپ نے شعر و ادب سے ناطہ قائم رکھا اور آپ کی شاعری اور افسانے مختلف ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہے، جن میں آصف فرخی کا ’دنیا زاد‘ سرفہرست ہے۔ ایک طویل تاخیر اور انتظار کے بعد رواں برس بالآخر آپ کاپہلا مجموعہ کلام ”کنار آب کا خواب“ منظر عام پر آیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ آپ کی دیگر تخلیقات بالخصوص افسانے بھی جلد قارئین کے ہاتھوں میں ہوں گے۔
پروفیسر نعمان الحق کا “کنار آب کا خواب” پر تبصرہ
یہ شاعر اس وسیع و عریض کائنات میں اپنی وسیع تر ذات کو آباد کر دیتا ہے۔ اس کے ہاں بادل، ہوا، بھیگتے کہسار، کبوتر، ریت، گم گشتِ صحرا دریا۔۔۔یہ شاعر خارج کی کائنات میں بھی ہے اور اپنے وجود کی خلوتوں اور پگ ڈنڈیوں پر بھی۔ یہ خود کلامی نہیں بلکہ بازگشت ہے۔یہاں پوری کائنات میں بس ایک ہی آواز ہے، انکی اپنی آواز۔ جب وہ اپنی تنہائی سے لرز جاتے ہیں تو ستاروں سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں، سمندروں کے پاتال میں اتر جاتے ہیں، جل پری کے رقص میں محو ہو جاتے ہیں۔۔ ۔ایسے موضوعات جو اس سے پہلے جدید نظم میں دیکھنے میں نہیں آئے ۔ ‘دریا گلی’، ‘راکھ’، ‘دھوپ کی چھتری’، ‘طلسمی رتھ’، ‘جل پری’، کوہِ امکاں’۔۔ اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے چپکے چپکے خورشید صاحب نے ایک نئی دیو مالا تخلیق کردی ہے۔
حارث خلیق کا “کنار آب کا خواب” پر تبصرہ
خورشید حسنین کے کلام میں محض خواب نہیں، اپنے عہد کی حقیقت کا ادراک اور انسان کے وجود سے عبارت دائمی حزن و ملال کی کسک ہے۔ یہ دنیا اور زمانوں کی گردش ان کے لئے ایک تسلسلِ بے محض ہے جس میں ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے میں ضم ہوتے جاتے ہیں۔ بود و نبود، ہجر و فراق، تسلیم و رضا، اور اطاعت و بغاوت کی باہم ستیزہ کاری کے نتیجے میں لگنے والے زخموں کا اندمال نہ کبھی ممکن تھا نہ ہوگا۔ مگر یہ دنیا اور اسمیں انسان کی حشر سامانیاں شاعر کو حیران بھی کرتے ہیں اور اپنا تابع بھی رکھتے ہیں
یہ ایک ہے اندازِ خوش آرائشِ ہستی
اس جیسے کئی اور زماں اور مکاں ہیں
انکا کلام پڑھ کر جس تازگی اور تراوٹ کا احساس ہوتا ہے وہ تازگی اور تراوٹ کم لکھنے والوں کے حصے میں آتی ہے۔۔۔ان کی شاعری کی لفظیات حسنِ فطرت کا جشن بپا رکھتی ہیں۔۔ زندگی کے بنیادی سوال اٹھاتا ہوا شاعر خود ناظر بھی ہے اور منظر بھی، تماشہ بھی ہے اور تماشہ بین بھی۔
علی اکبر ناطق کا “کنار آب کا خواب” پر تبصرہ
سید خورشید حسنین افسانہ نگار ہیں پرو فیسر ہیں، شاعر ہیں اور ترقی پسند ہیں۔ مگر اُن کی شاعرانہ حیثیت سب سے طاقتور ہے۔ یہ کتاب شاعری کی ہے اور خورشید حسنین کی ہے۔ اِس میں نظمیں اور غزلیں دونوں جمع ہیں اور دونوں میں اُنھیں دسترس کمال ہے۔ خورشید صاحب سے میری زیادہ ملاقاتیں نہیں ہیں۔ مَیں نے اُن کے ایک دو افسانے پڑھ رکھے تھے اور بس۔ وہ چونکہ فزکس کے پروفیسر ہیں اور افسانے میں بھی کچھ فزکس ہی کی عنایات تھیں لہذا مَیں سمجھ رہا تھا کہ پروفیسر ہونے کے ساتھ شوقیہ طور پر وہ چھوٹے موٹے افسانہ نگار ہیں مگر بھائیو مَیں نے جب اُن کی یہ کتاب پڑھی تو دنگ رہ گیا کہ کیسے ان کی جمالیات بڑے بڑے شاعروں کے کان کاٹتی نظر آتی ہے۔ اصل پوچھو تو وہ شاعر ہی ہیں۔ نظموں میں اُن کی معریٰ اور آزاد دونوں طرح کی نظمیں ہیں لیکن ہر دو میں روانی اور آہنگ اور موسیقی ایک ہی خرام ناز کا پتا دیتی ہے۔ خورشید حسنین کی یہ کتاب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ کیسے کیسے فن کے راجہ ایک خموش زندگی کے دھارے میں بہہ رہے ہیں جن کی خبر نہ عوام کو ہے نہ خواص کو کہ اُن کے پاس زور کا نقارہ نہیں ہے جو چوک چوراہے میں پیٹا جا سکے۔ خورشید صاحب کی اِس شاعری میں دو چیزیں مجھے بہت نمایاں نظر آئیں، ہلکے رنگوں سا احساسِ جمال اور زندگی کی نیرنگیوں سے باخبری مگر وہ بھی عین جمالیاتی پرتو کے سائے سائے ہرمصرعے مین نظر آتی ہیں مَیں یہاں اُن کی شاعری کی زیادہ مثالیں نہیں پیش کر پائوں گا کہ فیس بک شاعری کو پڑھنے کی جگہ نہیں ہے۔ شاعری کتاب سے پڑھنا ہی اصول ِ سخن پروری ہے چنانچہ آپ کتاب خرید کے پڑھیے اور لطف لیجیے۔
:درج زیل نظم مَیں کئی بار پڑھ چکا ہوں
دریا گلی میں شام
کہساروں پر دیے جل اٹھے جیسے جاگے پریت
پگدنڈی پر اک چرواہا گاتا جائے گیت
بادل کی چلمن سے جھانکے سپنوں کا اک جال
جال کے جیسے ہوا میں اڑتے اک ناری کے بال
گھور اندھیرا ہریالی پر کاڑھے اپنا نام
رین بسیرا ڈھونڈ رہی ہے جلتی بجھتی شام
ڈھلوانوں پر ترچھی چھت کے گھروں میں جلتی آگ
اک پرنالہ چھیڑ رہا ہے بھولا بسرا راگ
بل کھاتے رستے پہ مسافر دور ہی جاتا جائے
گھر کے باہر تنہا عورت دل کو ہے سمجھائے
اوپر بادل پیچھے جنگل، نیچے گہری کھائی
قطرہ قطرہ اک پتھر پر ٹپکے ہے تنہائی
بھیگ رہی ہے اوس میں کرسی وقت گیا ہے بیت
پگڈنڈی پر خاموشی ہے ختم ہوا وہ گیت