دیکھیے۔ پھول مت بانٹیے۔ یہ ہماری اقدار نہیں ہیں۔ یہ ہماری ثقافت نہیں ہے۔ یہ ہماری شریعت بھی نہیں ہے۔ معاشرہ بے حیائی اور اخلاق باختگی کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ تاروپود نازک ہیں۔ بکھر جائیں گے۔ مان جائیے نہیں تو یہ رہا ڈنڈا، یہ رہی بندوق اور یہ دھرے ہیں وارنٹ۔ چلیے جانب زنداں چلیے۔ خوش ہونا کوئی قابل تقلید کام نہیں۔ مسکرانا نری شیطانیت ہے۔ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔ محبت کی بات سر عام تو کیا پس پردہ بھی زیبا نہیں ہے۔ ہر وہ عمل جو خندہ زیرلب کا بھی سبب بنے یقینا حرام ہے۔ حرام نہیں تو مکروہ تو ضرور ہے اور مکروہ کی شہادت بھی دستیاب نہیں تو ناپسندیدہ تو ہے ہی۔
یہ چار روزہ زندگی امتحان کی جا ہے۔ اس فکر میں کیوں نہیں گھلتے۔ اس پریشانی میں کیوں مبتلا نہیں ہو۔ سر سجدے میں کیوں نہیں ہے۔ ماتھے پر محراب بننے میں ابھی کتنی دیر ہے۔ یہ زندگی کی بے مقصد دوڑ میں کیوں جتے ہو۔ کیا ہو گا اگر کوئی نئی ایجاد کر ڈالی۔ کیا ہو گا اگر کسی دریافت کا سہرا تمہارے سر بندھ گیا۔ ایک کاروبار کی ترقی سے سو ملازمتوں کے در وا ہوگئے تو کیا۔ ایک تحقیق سے نئی حیرتوں نے جنم لے بھی لیا تو کیا حاصل۔ موت کا فرشتہ راہ میں ہے۔ قبر کھلی پڑی ہے۔ منکر نکیر گوشوارے پلٹ رہے ہیں۔ ان گوشواروں میں نماز، روزہ، حج، زکات کے صفحے ہیں۔ کہیں خالی تو نہیں پڑے۔ باقی سب اس فانی دنیا میں رہ جانا ہے۔ کوئی عقل کرو۔
اس زندگی اور اس دنیا کو بہتر بنانے کی ذمہ داری تمہاری نہیں ہے۔ یہ کام کفار کے کرنے کے ہیں۔ انہیں کرنے دو۔ پنسلین کے بدلے یاقوت کا محل نہیں ملے گا۔ بلب کی روشنی کے صلے میں کوئی شہد کی نہر الاٹ نہیں ہونے لگی۔ یہ خلا میں جاتے راکٹ اسی خلا میں ایک دن ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ عرش بریں تک ان کی پہنچ نہیں ہے۔ اپنے بکرے، دنبے اور گائیں شمار کرو جن پر چڑھ کر پل صراط کے پار اترنا ہے۔ ادھر کوئی بلٹ ٹرین نہیں چلتی۔ نہ دعائیں، نہ وظائف، نہ مراقبے، نہ تسبیحات۔ یہ خالی توشے کس کام کے۔
یہ کیا انسانی حقوق کا ڈھول بجاتے رہتے ہو۔ یہ سب مغربی شیطنیت کے جال ہیں۔ یہ نئی تہذیب کے گندے انڈے ہیں۔ حقوق وہ ہیں جو ہماری تشریحِ عقیدہ سے برآمد ہوئے ہیں۔ ایمان کے فیصلے کی ترازو ادھر ہمارے حجرے میں گڑی ہے۔ ہم دل میں جھانکنے والے ہیں۔ ہم ذہن کو پڑھنے والے ہیں۔ یہ خدا اور بندے کے بیچ ہم مڈل مین ہیں۔ ہماری مہر سر محضر نہیں لگی تو اعمال نامہ موت کی دستاویز ہے اور بس۔ صنفی مساوات کا نعرہ ادھر کوڑے دان میں پڑا ہے۔ عورت کی آزادی مرد کی غلامی میں ہے۔ اس کی زندگی کے فیصلے اس کے اپنے ہاتھ میں کیسے دیے جا سکتے ہیں۔ اس کے لباس کی تراش ہماری قینچی کی مرہون منت ہے۔ اس کا دائرہ گھر کی دیوار کے اندر کھینچ دیا گیا ہے اور باہر وہ صرف کچا گوشت ہے اور مرد۔ خیر چھوڑو ہاں سنگ وخشت ہم نے الگ باندھ کررکھ چھوڑے ہیں۔ کبھی کچھ باغی روحوں پر برسانے کے کام آئیں گے۔
یہ جو ہم عقیدہ نہیں ہیں، یہ نجس اور ناپاک ہیں۔ ان پر صرف دو شہر نہیں بند، زندگی کے دروازے بند ہیں۔ ان سے ملاپ کفر سے کم نہیں۔ کلمہ تہنیت ان پر روا نہیں ہے۔ ان کی عبادت گاہیں، ان کے مقدسات مسمار کرنا اسلاف کا شعار رہا ہے اور ہم اسی شعار کے پیروکار ہیں۔ جہاں یہ ہم سے کم ہیں وہاں قانون اور تعزیر کی تشریح ہم کریں گے اور جہاں ہم ان سے کم ہیں وہاں ہم ان کی تشریح کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ ہم بارگاہ کے مقرب ہیں اور یہ اس کے معتوب ہیں۔ نیک اور بد کے بیچ، پاک اور ناپاک کے بیچ ایک لکیر کھنچی ہے جو متقین نے کھینچی ہے۔ اس لکیر کے ادھر ہی رہو تو عافیت ہے۔
تو کیا سبق یاد کرنا ہے آ ج کے دن۔ ہاں یہ کہ پھول محبت کرنے والے بانٹتے ہیں اور محبت ہماری اقدار میں نہیں ہے۔ اس لیے اس پر پابندی ہے۔ پر یاد رہے، آوازے کسنے کی آزادی ہے۔ نگاہوں سے کھا جانے کی آزادی ہے۔ کثیفے سنانے کی آزادی ہے۔ ونی اور سوارہ کی آزادی ہے۔ متعہ اور مسیار کی آزادی ہے۔ گڑیوں سے کھیلنے والی بچیوں کو بیاہ دینے کی آزادی ہے۔ عورت کو چار دیواروں میں قید رکھنے کی آزادی ہے۔ ہلکے پھلکے سے لے کر بھاری بھرکم تشدد کی آزادی ہے۔ اپنی کھیتی میں اس کی مرضی پوچھے بغیر ہل چلانے کی آزادی ہے اور اس سے بھی جی نہ بھرے تو کاری کرنے کی آزادی تو ہے ہی پر محبت پر پابندی ہے۔
آؤ بکی پر کمان سنبھالے مرزا کو بھول جائیں۔ سونجی گلیوں میں ہوکتی صاحباں کو بھول جائیں۔ دشت میں سرگرداں قیس کو فراموش کر دیں، محمل میں بے چین لیلی کو بھول جائیں۔ رانجھے کی بانسری کی تان کو مٹا دیں۔ ڈولی میں بیٹھی ہیر کی چیخیں بھول جائیں۔ فرہاد کے تیشے کو کند کر دیں۔ شیریں کی برہنہ پائی بھول جائیں۔ چراگاہوں میں پھرتے مہینوال سے نظریں چرا لیں۔ کچے گھڑے پر ڈوبتی سوہنی کو بھول جائیں۔ کیچ کے پنوں کے عطر کی خوشبو اڑا ڈالیں۔ صحرا میں قدموں کے نشان ڈھونڈتی بھنبھور کی سسی کو بھول جائیں۔ کیا بدیع الجمال ، کیا سیف الملوک ، کیا مومل رانو ، کیا یوسف خان، کیا شیر بانو، کیا موسی خان اور گل مکئی، کیا سمو اور مست توکلی، کیا حانی شہ مرید، کیا نوری جام تماچی اور کیا عمر ماروی، سب کو بھول جاتے ہیں۔ اب ایسے بیج بونے کا وقت ہے جس سے کانٹوں کے کیکٹس اگیں، خوشبو والے پھول نہیں کہ محبت اب نصابوں میں نہیں ہے۔ بہار کے دن بیت گئے ہیں اور سینوں میں دل کی جگہ پتھروں نے لے لی ہے۔ ویلنٹائن ڈے ان کو مبارک جو خوش ہونے کا ہنر جانتے ہیں۔ ہمارے تو گھر کی خون رنگ دیواروں پر اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔
1 Comment
Iqbal Haider · March 4, 2022 at 10:49 pm
A lot, but not really. It’s the same thought over and over again who we are, why are we the way we are.
When would this rut end. Will it ever end.
Even the most vicious circle breaks its cycle once in a while, what kind of spin have we got.
Our Creator must have been the best of them all. Keep praying and wait for the miracle, brother.
if that doesn’t work pray some more.